نانگا پربت، جسے "قاتل پہاڑ" بھی کہا جاتا ہے، دنیا کی نویں بلند ترین چوٹی ہے جو 8,126 میٹر (26,660 فٹ) کی بلندی پر واقع ہے۔ یہ پاکستان کے علاقے گلگت بلتستان میں واقع ہے جس کا شمار دنیا کی خطرناک ترین چوٹیوں میں ہوتا ہے۔ اس کی کھڑی ڈھلوانوں اور غیر متوقع موسم کی وجہ سے یہ پہاڑ نہ صرف چڑھائی کے شوقین افراد کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے بلکہ یہاں کئی جانیں بھی جا چکی ہیں۔ کوہ پیماؤں کے لیے نانگا پربت کو سر کرنا ایک بہت بڑی کامیابی سمجھی جاتی ہے، مگر یہ سفر ان کے لئے جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے۔
ہر سال دنیا بھر سے مہم جو اور کوہ پیما اس پہاڑ کو سر کرنےکے لیے یہاں آتے ہیں۔"کلر ماؤنٹین" کے نام سے مشہور نانگا پربت کے بیس کیمپ میں 22 جون 2013 کو ایک افسوسناک سانحہ رونما ہوا۔ غیر ملکی کوہ پیماؤں کے آرام کی جگہ، جو دنیا کی نویں بلند ترین چوٹی سر کرنے کی تیاری میں تھے، کو دہشت گردوں کے ایک گروپ نے بے دردئ سے قتل کر ڈالا، جن میں دس غیر ملکی کوہ پیما اور ایک مقامی گائیڈ شامل تھے۔
اس واقعے کو بعد میں "چلاس سانحہ" کے نام سے جانا گیا۔ یہ حملہ کس نے کروایا اور اس کا اصل مقصد کیا تھا یہ آج تک معلوم نہ ہو سکا، اگرچہ کئی گرفتاریاں ہوئیں، لیکن اس واقعے کے اصل ماسٹر مائنڈز کو اب تک انصاف کے کٹہرے میں نہیں لایا جا سکتا
اس رات تقریباً 10 بجے، تقریباً 16 حملہ آور بیس کیمپ پہنچے، جو 4,200 میٹر کی بلندی پر واقع ہے۔ انہوں نے اس دور دراز مقام تک پہنچنے کے لیے دو مقامی رہنماؤں کو اغوا کیا اور ان کی رہنمائی سے یہاں تک پہنچے۔ پھر حملہ آوروں نے فائرنگ کی، جس میں چین، یوکرین، نیپال، لتھوینیا، اور سلوواکیا سے آئے کوہ پیماؤں اور ایک پاکستانی رہنما کو قتل کر دیا۔
ایک چینی-امریکی کوہ پیما حملے کے دوران بچ نکلنے میں کامیاب ہو گیا، اور ایک لاٹوینیا کا کوہ پیما کیمپ سے باہر تھا وہ بھی بچ نکلا۔ حملہ آوروں نے جنہیں بھی پایا، انہیں قتل کر دیا، جس نے پہاڑ کی اس بلندی پر ایک دہشت ناک اور قیامت خیز منظر برپا کر دیا۔
تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے حملے کی ذمہ داری قبول کی، اور کہا کہ یہ حملہ ان کے رہنما کی امریکی ڈرون حملے میں ہلاکت کے بدلے میں کیا گیا تھا۔ تاہم، کچھ رپورٹس کے مطابق، حملہ آوروں نے ابتدائی طور پر کوہ پیماؤں کو اغوا کرنے کا منصوبہ بنایا تھا، لیکن حالات بگڑنے کی وجہ سے قتل عام ہو گیا۔
حملے کے بعد، پاکستانی حکام نے بڑے پیمانے پر کارروائی کی اور کئی مشکوک افراد کو گرفتار کیا۔ ان میں سے ایک، حامد اللہ، کو حملے کے اہم ملزم کے طور پر گرفتار کیا گیا۔ ان گرفتاریوں کے باوجود، قتل عام کے اصل منصوبہ ساز ابھی تک پکڑے نہیں گئے۔ کچھ ملزمان کو ثبوت کی کمی کی وجہ سے چھوڑ دیا گیا، اور کچھ فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ بحر حال حقیقت کا علم تو صرف اللہ کی زات کو ہے۔
ہم دعا گو ہیں کہ اس کیس میں ملوث مجرمان جلد انصاف کے کٹہرے میں لائے جائیں اور متاثرین کے خاندانوں کو انصاف ملے۔ ایسے واقعات کے ذریعے ہم سب کو یہ سبق ملتا ہے کہ ہمیں اپنے معاشرے میں امن اور انصاف کے لیے مسلسل کوششیں جاری رکھنی ہوں گی، تاکہ کوئی بھی مقام، چاہے وہ کتنا ہی دور یا پرخطر ہو، محفوظ اور پرامن رہے۔
0 Comments