Header Ads Widget

The Disappearance of Dr. Aafia Siddiqui | Why Dr. Aafia Siddiqui Became the World’s Most Wanted Woman?

Aafia Siddiqui, suspected of terrorism, with links to global controversies."

ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی کہانی حالیہ تاریخ کی سب سے پراسرار اور دردناک داستانوں میں سے ایک ہے۔ کبھی ایک اُبھرتی ہوئی سائنسدان جن کا مستقبل روشن نظر آتا تھا، وہ الزامات اور عالمی سرخیوں کی بھول بھلیوں میں ایسی پھنس گئیں، جنہوں نے انہیں دنیا کی سب سے مطلوب خواتین کی فہرست میں شامل کر دیا۔ ان کی کہانی میں بہت سے ایسے سوالات ہیں جن کا جواب ابھی تک نہیں ملا، اور وقتافوقتا ان سے متعلق ایسی خبریں سامنے آتی رہتی ہیں جو دل دہلا دیتی ہیں۔ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ خاتون کی زندگی اس تاریک راہ پر کیسے چلی گئی؟ وہ اب کہاں  ہیں، اور آج بھی ان کا نام اتنی شدت سے کیوں یاد کیا جاتا ہے؟ آئںں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی دل کو چھو لینے والی اور پیچیدہ کہانی کا جائزہ لیں۔

ڈاکٹر عافیہ صدیقی 1972 میں کراچی، پاکستان میں پیدا ہوئیں۔ ان کا تعلق ایک تعلیم یافتہ اور متوسط طبقے کے خاندان سے تھا۔ ان کے والد نیوروسرجن تھے اور والدہ اسلامی سماجی کارکن تھیں۔ انہوں نے اپنی تعلیم امریکہ میں جاری رکھی، 1990 میں ایم آئی ٹی میں داخلہ لیا اور پھر برینڈائس یونیورسٹی سے نیوروسائنس میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ دوران تعلیم، عافیہ نے اسلامی تنظیموں جیسے مسلم اسٹوڈنٹ ایسوسی ایشن اور ال-کیفہ ریفیوجی سینٹر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، جن کا کام بوسنیا کے جنگ متاثرین کے لیے فنڈ جمع کرنا اور قرآن کی کاپیوں کی تقسیم شامل تھی، جن کو بعد میں متنازعہ سرگرمیوں سے جوڑ دیا گیا

  ، عافیہ نے اپنے شوہر، امجد خان، اور تین بچوں کے ساتھ پاکستان واپس آنے کا فیصلہ2002 میں کیا۔ کچھ وقت بعد، ان کی شادی ٹوٹ گئی۔ مارچ 2003 میں، عافیہ اور ان کے بچے کراچی سے اسلام آباد کے لیے روانہ ہوئے، لیکن وہ کبھی پہنچے نہیں۔ اگلے پانچ سالوں کے دوران، ان کی اور ان کے بچوں کی کوئی خبر نہیں ملی۔

پانچ سال تک ان کی کوئی خبر نہ ملی، جبکہ کچھ رپورٹس کے مطابق وہ افغانستان کے بدنام زمانہ بگرام جیل میں قید تھیں۔ بعد میں، قیدیوں نے "قیدی 650" کے نام سے ایک خاتون کی شناخت کی جو مبینہ طور پر وہاں تشدد کا نشانہ بن رہی تھی، لیکن امریکی حکام نے ان دعوؤں کو مسترد کیا۔ یہ دور عافیہ صدیقی کی زندگی کا سب سے تقلیفدہ دور تھا۔ ان کے خاندان کا کہنا ہے کہ انہیں امریکی یا پاکستانی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے اغوا کر لیا تھا اور بگرام ایئر بیس، افغانستان میں خفیہ طور پر قید میں رکھا گیا۔ ان کی ماں کو دھمکی ملی کہ اگر وہ خاموش نہ رہیں تو عافیہ اور ان کے بچوں کی زندگیاں خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ 

تاہم، امریکی حکومت اس سے انکار کرتی ہے اور کہتی ہے کہ عافیہ 2008 میں افغانستان میں گرفتار ہوئی۔ ان کے سابق شوہر اور کچھ دیگر ذرائع کا کہنا ہے کہ عافیہ اس دوران پاکستان میں ہی رہی اور اپنے خاندان سے رابطہ منقطع کر لیا تھا۔ اس کے علاوہ، عافیہ کے چچا نے بتایا کہ 2008 کے اوائل میں عافیہ ان کے پاس آئی تھیں اور طالبان کے زیر کنٹرول علاقوں میں جانے کی درخواست کی تھی کیونکہ وہ انٹیلی جنس ایجنسیوں کے تحت محفوظ محسوس نہیں کر رہی تھیں۔  

، عافیہ افغانستان کے شہر غزنی میں 2008 میں ملی، جہاں مقامی پولیس نے انہیں مشکوک دستاویزات اور دھماکہ خیز مواد کے نوٹس کے ساتھ گرفتار کیا۔ جب امریکی افسران ان سے تفتیش کے لیے پہنچے تو جھڑپ ہوئی۔ امریکی دعویٰ کرتے ہیں کہ عافیہ نے بندوق اٹھا کر ان پر فائرنگ کی، لیکن وہ نشانہ خطا گیا۔ عافیہ نے ان تمام الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ انہیں جھوٹے الزامات میں پھنسایا گیا ہے۔

عافیہ کا مقدمہ 2010 میں نیو یارک کے کورٹ میں پیش ہوا، جہاں پر انہیں قتل کی کوشش اور دیگر الزامات میں 86 سال قید کی سزا سنائی گئی۔ مقدمے کے دوران ثبوتوں کی کمی، جیسے کہ بندوق پر انگلیوں کے نشانات کا نہ ہونا، نے اس کیس کو مزید مشکوک بنا دیا۔ 

عافیہ کی گمشدگی اور دہشت گردی میں ملوث ہونے کے بارے میں متضاد بیانات سامنے آئے ہیں۔ کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شامل تھیں اور انھیں سازش کے تحت قید کیا گیا اور کجھ کہتے ہیں کہ انہوں نے ایک ایسا طاقتور فارمولا ایجاد کر لیا تھا جو امریکا کے خلاف استعمال کیا جا سکتا تھا بحر حال حقیقت کا علم صرف اللہ کی ذات کو ہے۔ دوسری طرف، امریکی انٹیلیجنس کا ماننا ہے کہ ان کے القاعدہ کے نیٹ ورک سے گہرے روابط تھے۔

عافیہ اس وقت امریکی ریاست ٹیکساس کی ایف ایم سی کارسویل جیل میں قید ہیں۔ سالوں سے، کئی عالمی کوششیں کی گئیں تاکہ ان کی رہائی ممکن ہو سکے۔ پاکستان میں، ان کا کیس مذہبی اور سیاسی گروہوں کے لیے ایک علامت بن چکا ہے، اور ان کی رہائی کے لیے احتجاج بھی ہوتے رہتے ہیں​۔





Post a Comment

0 Comments