Header Ads Widget

پاکستان کی صحافت کی موجودہ صورتحال

 آج کل صحافت میں ایک نیا اور افسوسناک رجحان دیکھنے کو مل رہا ہے، جہاں  میڈیا  چینلز خبر کی صداقت  سے زیادہ ریٹنگز کو ترجیح دیتے نظر آتے ہیں۔ میڈیا چینلز اکثر سنسنی خیز خبروں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو متوجہ کیا جا سکے، چاہے وہ خبریں مکمل طور پر درست نہ بھی ہوں۔ ریٹنگز اور وائرل ہونے کی دوڑ میں، صحافت کے بنیادی اصولوں جیسے سچائی اور غیر جانبداری کو نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ سوشل میڈیا کی بڑھتی ہوئی مقبولیت نے اس مسئلے کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے، جہاں غیر تصدیق شدہ معلومات تیزی سے پھیل جاتی ہیں اور لوگ ان خبروں پر یقین کر 

پچھلے چند دنوں سے لاہور کے پنجاب گروپ آف کالجز  کے کیمپس 10 میں پیش آنے والے افسوسناک واقعے نے عوام اور میڈیا کی بھرپور توجہ حاصل کی ہوئ ہے، جس میں ایک سیکیورٹی گارڈ پر پہلی کالج کی طالبہ سے مبینہ طور پر زیادتی کا الزام ہے، جو تہہ خانے میں لاک ہو گئی تھی۔ جہاں ایک طرف روایتی میڈیا اس خبر کو دبانے کی کوشش میں مصروف ہے، وہیں سوشل میڈیا پر مختلف افواہیں اور غیر تصدیق شدہ معلومات پھیل رہی ہیں۔ اس واقعے نے میڈیا اور عوام کے درمیان عدم اعتماد کو مزید بڑھا دیا ہے۔

پاکستان میں صحافت کو ریاستی دباؤ کا سامنا کرنا ایک عام سی بات ہو گئی ہے۔ صحافیوں کو ایسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے جہاں ان کی خبریں اور رائے کو محدود کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ رپورٹس کے مطابق، حکومت کی طرف سے سنسرشپ اور گرفتاریوں کا رجحان عام ہے، اور بعض اوقات صحافیوں کو دھمکایا بھی جاتا ہے تاکہ وہ حساس معاملات پر خاموش رہیں۔  2022 میں پاکستان صحافت کی آزادی کے عالمی انڈیکس میں 180 ممالک میں سے 157ویں نمبر پر تھا، جو اس حقیقت کی عکاسی کرتا ہے کہ یہاں صحافیوں کو کام کرنے میں شدید مشکلات کا سامنا ہے

پاکستان میں صحافت اس وقت ایک نازک موڑ پر  کھڑی ہے جہاں حقائق اور عوامی اعتماد کو بحال کرنا ضروری ہے۔ میڈیا کی ساکھ کو بہتر بنانے کے لیے سنجیدہ اقدامات  اٹھانے کی ضرورت ہے تاکہ صحافت دوبارہ اپنے اصولوں، یعنی سچائی، غیر جانبداری، اور ذمہ داری کو اپنائے۔ اگر میڈیا اپنے وقار اور عوامی بھروسے کو بحال کرنا چاہتا ہے تو اسے سنسنی خیزی اور ریٹنگز کی دوڑ سے نکل کر حقائق پر مبنی رپورٹنگ کی طرف واپس آنا ہوگا۔













Post a Comment

0 Comments