پاکستانی کسٹمز کا بڑے پیمانے پر بھارتی ساختہ غیرقانونی اشیا کی وارداتوں پر کارروائی

کراچی سے موصولہ اطلاع کے مطابق، Collectorate of Customs Appraisement (West) نے بھارت ساختہ اشیا کی پاکستان میں غیر قانونی درآمد کی متعدد کوششیں ناکام بنا دیں۔ Federal Board of Revenue (FBR) کے جاری کردہ بیان میں بتایا گیا ہے کہ یہ اقدامات امپورٹ پالیسی آرڈر کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتے ہیں اور قومی تجارتی قوانین کے تحت سنگین نوعیت کے ہیں۔
پہلی کارروائی اس وقت سامنے آئی جب ایک درآمدکنندہ نے ٹیکسٹائل مشینری کی کھیپ کو چین کی بنیاد ظاہر کر کے کلیئر کرانے کی کوشش کی۔ مگر کسٹمز حکام نے مشینری پر واضح طور پر “Made in India” کی نشانیاں دریافت کر لیں۔ یہ کھیپ تقریباً 2 کروڑ 42 لاکھ روپے مالیت کی تھی جس کی کلیئرنس بروقت روک دی گئی۔
اس کے بعد کراچی انٹرنیشنل کنٹینر ٹرمینل (KICT) اور دیگر آف ڈاک ٹرمینلز پر نگرانی مزید سخت کر دی گئی۔ نتیجتاً تین مزید کھیپیں روکی گئیں جن میں شامل تھیں: ایک جبل علی سے بھیجی گئی ٹیکسٹائل مشینری (مالیت تقریباً 1 کروڑ 66 لاکھ روپے)، ایک پاور ڈسٹری بیوشن یونٹ (مالیت 37 لاکھ 60 ہزار روپے)، اور ایک گارنیٹ میش کنٹینر (تقریباً 1 لاکھ 54 ہزار روپے) جسے ترکیہ ظاہر کیا گیا تھا مگر اس پر “Made in India” درج تھا۔
یہ تمام کارروائیاں ظاہر کرتی ہیں کہ درآمدی جعلسازی اور ماخذ ملک کی غلط نمائندگی قومی تجارت اور سلامتی کے لیے بڑا خطرہ بن چکی ہے۔ کسٹمز حکام کے مطابق، اس طرح کی سرگرمیاں نہ صرف منصفانہ تجارت کو نقصان پہنچاتی ہیں بلکہ مقامی صنعتوں کے مفادات کو بھی متاثر کرتی ہیں۔
کیوں یہ کارروائی اہم ہے؟ کیونکہ ایسے جعلی ماخذ والے درآمدی عمل سے حکومت کے محصولات میں کمی، مقامی صنعتوں میں مسابقتی دباؤ، اور غیر دستاویزی تجارت میں اضافہ ہوتا ہے۔ بھارت سے بننے والی اشیا کو چین یا ترکی کے نام پر درآمد کرنا نہ صرف تجارتی بددیانتی ہے بلکہ پاکستان کی پالیسی کے خلاف بھی ہے۔
یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ حکومت نے بھارت سے بہت سی مصنوعات پر پابندی عائد کر رکھی ہے، اور ایسے کسی بھی اقدام پر جہاں ماخذ ملک غلط ظاہر کیا جائے، قانون کے تحت سخت کارروائی کی جا سکتی ہے۔ کسٹمز کے مطابق، یہ قدم تجارتی نگرانی کے نظام کو بہتر بنانے کی سمت میں اہم پیش رفت ہے۔
اقدامات اور حکمتِ عملی کے طور پر کسٹمز نے RMS 2.0 (Risk Management System) استعمال کیا، جس سے مشکوک شپمنٹس کی شناخت، لیبلنگ کی جانچ، اور آف ڈاک ٹرمینلز پر نگرانی ممکن ہوئی۔ رپورٹ کے مطابق کچھ مشینری پر “manufacturer’s plates” اور “specification markings” مسخ کیے گئے تھے تاکہ اصل ماخذ چھپایا جا سکے۔
کسٹمز کے ترجمان نے کہا کہ “چاہے کوئی شپمنٹ چھوٹی ہو یا بڑی، ماخذ ملک کی غلط نمائندگی قانون کی خلاف ورزی ہے، اور اس کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔”
سماجی و معاشی اثرات کے لحاظ سے یہ کارروائی صرف ایک ضابطہ جاتی قدم نہیں بلکہ ایک مضبوط پیغام بھی ہے۔ اس سے مقامی صنعتوں کو اعتماد ملے گا کہ حکومت غیر قانونی درآمدات کے خلاف سنجیدہ ہے۔ اس سے سرمایہ کاری، پیداوار، روزگار، اور برآمدات میں بھی مثبت اثر متوقع ہے۔
تجارتی شفافیت بڑھنے سے حکومت کو مقامی پیداوار کے فروغ اور درآمدی انحصار کم کرنے کا موقع ملے گا۔ البتہ اس کامیابی کو برقرار رکھنے کے لیے مستقل نگرانی، جدید ٹیکنالوجی کا استعمال، اور قانون پر سخت عمل درآمد ضروری ہے۔
مستقبل کی سمت میں دیکھنا ہوگا کہ آیا کسٹمز اپنی نگرانی کو مسلسل بہتر بناتا ہے یا نہیں، کیونکہ درآمدی جعلسازی کی تکنیکیں بدلتی رہتی ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مقامی صنعتیں بھی درآمدی متبادل کے طور پر اپنی پیداوار بڑھائیں تاکہ پاکستان معاشی طور پر خود کفیل بن سکے۔
آخر میں کہا جا سکتا ہے کہ پاکستانی کسٹمز نے اس ماہ دوغلی تجارت کے خلاف ایک مضبوط پیغام دیا ہے کہ چاہے کھیپ کتنی ہی چھوٹی کیوں نہ ہو، ماخذ ملک کی غلط نمائندگی برداشت نہیں کی جائے گی۔ یہ قدم شفاف تجارتی نظام اور مقامی صنعتوں کی حفاظت کے لیے وقت کی اہم ضرورت ہے۔
