ایران کو شدید معاشی بحران اور عوامی بے چینی کا خطرہ

🕒 بدھ 22 اکتوبر 2025

ایران کا معاشی بحران

تہران (22 اکتوبر 2025): ایران اس وقت شدید معاشی دباؤ کا شکار ہے جہاں مہنگائی اور کساد بازاری نے عوامی زندگی کو بری طرح متاثر کر دیا ہے۔ اقوام متحدہ کی پابندیوں کے دوبارہ نفاذ کے بعد ملک کی معیشت دباؤ میں آ گئی ہے اور حکومت محدود اختیارات کے ساتھ استحکام برقرار رکھنے کی کوشش کر رہی ہے۔

ایرانی حکام کا کہنا ہے کہ امریکہ، مغربی اتحادیوں اور اسرائیل کی جانب سے عائد کردہ نئی پابندیاں دراصل ایران کے اندر بے چینی پیدا کرنے اور اسلامی جمہوریہ کے وجود کو خطرے میں ڈالنے کی کوشش ہیں۔ حکومت نے پابندیوں کے اثرات کو کم کرنے کے لیے متعدد اجلاس منعقد کیے ہیں تاکہ معیشت کو تباہی سے بچایا جا سکے اور عوامی غصے کو قابو میں رکھا جا سکے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق ایران میں بدانتظامی، تیزی سے بڑھتی مہنگائی، کرپشن اور امیر و غریب کے درمیان بڑھتی خلیج نے عوامی ناراضگی کو مزید ہوا دی ہے۔ ریاستی میڈیا بھی اب کھلے عام کرپشن اور ناکام پالیسیوں پر رپورٹنگ کر رہا ہے، جس سے عوامی بے چینی میں اضافہ ہو رہا ہے۔

توانائی کے ماہر اور جارج میسن یونیورسٹی کے سینئر وزٹنگ فیلو، عمود شکری کے مطابق اقوام متحدہ کی نئی پابندیاں ایران کی معاشی بنیادوں کو مزید کمزور کر دیں گی۔ انہوں نے کہا کہ پابندیاں بینکنگ نظام کو متاثر کر رہی ہیں، تجارت کو محدود کر رہی ہیں اور تیل کی برآمدات کو روکے ہوئے ہیں، جو کہ ملک کی آمدن کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں۔

ایران کی مہنگائی کی سرکاری شرح تقریباً 40 فیصد ہے، جبکہ کچھ غیر سرکاری اندازوں کے مطابق یہ شرح 50 فیصد سے بھی تجاوز کر گئی ہے۔ روزمرہ استعمال کی اشیاء جیسے گوشت، چاول، چینی اور سبزیوں کی قیمتوں میں ایک سال کے دوران اوسطاً 50 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ رہائش اور یوٹیلیٹی بلز بھی مسلسل بڑھ رہے ہیں، جس سے متوسط طبقے کے لوگ سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔

ایک سرکاری ملازم علی رضا نے بتایا، ’’میری تنخواہ صرف 34 لاکھ تومان (تقریباً 300 ڈالر) ہے۔ میری بیوی کی کمپنی بند ہو چکی ہے اور ہمارے دو بچوں کے اخراجات پورے نہیں ہو پا رہے۔‘‘ اسی طرح شیراز کی ایک فیکٹری ورکر سیما نے کہا، ’’ہم پہلے ہی تین بچوں کے ساتھ گزارہ مشکل سے کرتے ہیں، اب قیمتیں روز بڑھتی ہیں اور ہم مہینے میں ایک بار بھی گوشت نہیں خرید سکتے۔‘‘

ایرانی قیادت فی الحال “مزاحمتی معیشت” یعنی خود کفالت کی پالیسی پر عمل پیرا ہے اور چین و روس کے ساتھ تجارت بڑھانے کی کوشش کر رہی ہے۔ تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ اقدامات 92 ملین آبادی والے ملک کے لیے کافی نہیں ہیں۔

اگر پابندیاں برقرار رہیں تو ایران کو نہ صرف معاشی بلکہ سیاسی طور پر بھی مزید دباؤ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ اگر جوہری تنازع کا سفارتی حل نہ نکلا تو ایران مزید بین الاقوامی تنہائی اور اسرائیلی حملوں کے خطرے سے دوچار ہو سکتا ہے۔

Scroll to Top