گلگت سے اسلام آباد روانہ ہونے والا جہاز جو 35 سال بعد بھی لاپتا ہے

چند لمحوں میں وہ پرواز جو منزل تک پہنچنی تھی، آسمان کی وسعتوں میں غائب ہو گئی۔ اس کے بعد کئی دن تک سرچ آپریشنز کیے گئے۔ پاکستانی فوج کے طیارے اور ہیلی کاپٹرز نے گلگت، نانگا پربت اور آس پاس کے پہاڑی علاقوں میں طویل تلاش کی، مگر کچھ نہ ملا۔ بھارت اور افغانستان نے بھی اس جہاز کے بارے میں لاعلمی ظاہر کی۔ یوں لگا جیسے وہ طیارہ زمین پر گرا ہی نہیں بلکہ ہوا میں ہی تحلیل ہو گیا۔
متاثرہ خاندان آج بھی اُس دن کو نہیں بھول پائے جب ان کے پیارے اچانک گم ہو گئے۔ گلگت کے رہائشی شاہ دین کے مطابق ان کے بھائی، بھابھی اور پانچ سالہ بھتیجی اسی جہاز میں سوار تھے۔ وہ بتاتے ہیں کہ “شروع کے کئی برس ہم ہر دروازے پر امید لیے بیٹھے رہے کہ شاید کوئی خبر آئے، مگر کچھ نہ ہوا۔” شاہ دین کے والدین بھی اسی انتظار میں دنیا سے رخصت ہو گئے۔
اسی طرح دنیور کے صاحب جان، جو اُس وقت پی آئی اے کے ملازم تھے، بتاتے ہیں کہ ان کی والدہ اور بھائی اسی فلائٹ میں تھے۔ وہ کہتے ہیں، “جب تک لاش نہ ملے، دل مانتا نہیں۔ مگر سالوں بعد صرف ایک جملہ ملا: طیارہ کریش ہو گیا۔”
تحقیقات میں کئی نظریات سامنے آئے۔ کچھ ماہرین نے کہا جہاز پہاڑ سے ٹکرا گیا ہوگا، جبکہ دیگر کا خیال تھا کہ غلطی سے لائن آف کنٹرول کے قریب جا کر بھارت نے اسے نشانہ بنایا۔ مگر نہ کوئی شواہد ملے، نہ کوئی تصدیق۔ ایک برطانوی کوہ پیما نے نانگا پربت پر بیان دیا کہ اس نے “بادلوں میں گم ہوتا ہوا جہاز دیکھا”، مگر وہ مقام کبھی واضح نہیں ہو سکا۔
ڈیڑھ ماہ تک جاری رہنے والے سرچ آپریشن کے بعد آخر کار حکام نے تمام 54 افراد کو مردہ قرار دے دیا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ آج 35 سال گزرنے کے بعد بھی فلائٹ 404 کا کوئی ملبہ نہیں ملا، کوئی ثبوت سامنے نہیں آیا۔
یہ صرف ایک پرواز نہیں تھی بلکہ درجنوں خاندانوں کی کہانی تھی جن کے پیارے بغیر الوداع کہے ہمیشہ کے لیے غائب ہو گئے۔ آج بھی ہر سال 25 اگست کو وہ دن ان گھروں میں تازہ ہو جاتا ہے جہاں کبھی ان مسافروں کی ہنسی گونجتی تھی۔ فلائٹ 404 اب پاکستان کی فضائی تاریخ کا سب سے پراسرار راز بن چکی ہے، ایک ایسا سوال جس کا جواب شاید کبھی نہ ملے۔
